دلی کی
دوارکا میں دامنی کی عصمت دری اور قتل کی شرم ناک
درندگی نے ہندوستان سمیت پوری دنیا میں خواتین
کی حیثیت، ان کے تحفظ، سماج میں ان کے رول، خواتین
اور مرد کے تعلقات، آزادیِ نسواں کی حقیقت جیسے اہم مسائل
پر بحث چھیڑ دی ہے۔ آج کی خدابیزار، خدا فراموش،
خدا کی باغی تہذیب نے انسانیت کی اجتماعی
زندگی سے خدا تعالیٰ کو بے دخل کردیا ہے اور اپنے ناقص
علم، خام عقل اور نفسانیت کو خدا بنالیا۔ خدا کو چندرسموں اور
عبادت گاہوں تک مقید کردیا، پچھلے تقریباً تین سو سالوں میں
جو علم، عقل اور نشاة ثانیہ کا دورکہلاتا ہے، انسانیت نے ایک رخی
ترقی کی اور دوسری طرف اخلاقی اور روحانی لحاظ سے
اتنی ہی گراوٹ کا شکار ہوئی، جس کے مختلف مظاہر دنیا بھر
میں جنگ، فساد، نشہ، معاشرتی انتشار،زنا، قتل، بھک مری، بے
روزگاری، اقتصادی نابرابری کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں۔
اب ہوتا یہ ہے کہ انسانیت کے جسم کے اندر خدا بے زار تہذیب کے
فاسد اثرات پیدا ہونے والی بیماریوں میں کوئی
ایک پھوڑا باہر آجاتا ہے تو وقتی ہنگامہ ہوتا ہے، کبھی امریکی
بینک سود کی وجہ سے ناکام ہوئے، عالمی مندی آئی،
کرپشن کا مسئلہ انّا ہزارے نے اٹھایا، سوئس بینکوں میں کالی
دولت گئی، رحمِ مادر میں دختر جنین کشی ہوئی وغیرہ
وغیرہ، تو ہنگامہ ہوا۔ وقتی برق وگرد اٹھائی گئی، نیناساہنی
کو اسی دہلی میں بڑے نیتاؤں نے کاٹ کر تندور میں
بھون ڈالا، انڈین ایکسپریس کی نامہ نگار شوانی
بھٹناگر کو ایک آئی پی ایس افسر نے ناجائز تعلقات کے بعد
قتل کرڈالا، جیسیکا لال قتل ہوا، بھوپال میں شہلہ مسعود ناجائز
تعلقات میں قتل ہوئی اور بڑے بڑے بگلابھگت دیش بھگتوں کے نام
آئے، راجستھان میں مشہور بھنوری دیوی (نرس) کا قتل ہوا
اور لاش شوگرمل کی بھٹی میں جلواکر اندرا نہر میں ڈلوائی
گئی، وقتی ہنگامے ہوئے، موم بتیاں جلائی گئیں،
دھرنے، پردرشن ہوئے؛ مگر کل ملاکر معاشرہ میں جنسی تشدد، بے حیائی،
فحاشی اور زناکاری بڑھتی رہی، حکومتیں ڈانس بار،
ڈسکو کلب اورجسم فروشی کے لائسنس جاری کررہی ہیں۔
ہر اسکول میں مس اسکول کے مقابلے ہورہے ہیں، ہر انسٹی ٹیوٹ
میں فیشن شو اور کیٹ واک Cat walk
ہورہا ہے۔ یہ میڈیا جو گھڑیالی آنسو بہارہا
ہے، یہ عورت کے جسم کو کس طرح پیش کرتا ہے، وہ اس کی خبروں اور
مباحثوں کے درمیان دکھائی جانے والی نیم عریاں
اشتہاروں، فحش اشاروں بے جا ڈائیلاگ سے ہی پتہ چل جاتا ہے۔ بالی
وڈ نے تو عورت کو رسوا اور ذلیل کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ آج
ہندوستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں کوئی ہوٹل ایسا نہیں
ہوگا (اکا دکا کو چھوڑ کر) جہاں کھانے کے مینو کے ساتھ ”گرم زندہ گوشت“ بھی
سپلائی کرنے کا اہتمام نہ ہو۔ دہلی کے پہاڑ گنج کے گیسٹ
ہاؤس میں کیا کیا ہوتا ہے، دہلی کے لوگ جانتے ہوں گے، مس
انڈیا، مس فلم فیئر، مس فیمینا، مس لیکمے میں
کیا جسم کی فحش نمائش کے علاوہ کچھ ہوتا ہے؟ اس کو دیکھنے والے،
حصہ لینے والے کون لوگ ہوتے ہیں؟ یہ شوبز اور ریالٹی
شو جہاں دنوں کے حساب سے مرد وزن کو چوبیس گھنٹوں کیمروں کی
نگرانی میں رکھا جاتا ہے، یہ سب مل کر سماجی ماحول، عورت
کی آزادی اور تفریح کی تعریف متعین کررہے ہیں۔
کیا ایسے سماج میں ۱۶/دسمبر جیسے حادثے اور درندگیاں غیرفطری
ہیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی تاریخ میں
انسان کبھی بھی فطرت سے (الٰہی رہنمائی) سے بغاوت
کرکے امن حاصل کرسکا ہے؟ جب ہمارے سماج میں آج ہر ماں باپ اپنی اولاد
کے سامنے زندگی کا مقصد صرف کامیابی اور موج مستی وکیریئر
کے نام پر دیتا ہے تو موقع ملنے پر وہ اسے حاصل کیوں نہیں کرے
گا؟ پھر اس مسئلہ کو جس طرح جنسی جھگڑا بنایا جارہا ہے، کیا وہ
کسی بھی طرح انسانیت کے لیے فائدہ مند ہوگا؟ ”آج میری
اسکرٹ اونچی“، ”میں اپنے جسم کی مالک ہوں“، نظرتیری
خراب، پردہ میں کروں“، ”آدھی رات کو گھومنے کی آزادی“ جیسے
نعرہ لگانے والی ذہنیت جس سراب کے پیچھے دوڑ رہی ہے وہ
سراب جہاں پیدا ہوا وہاں اس کا کیا حال ہے۔ فرانس، امریکہ،
انگلینڈ، سویڈن اور جرمنی کے کچھ اعداد وشمار پروین سوامی
نے ۲۷/دسمبر ۲۰۱۲/ کے ”دی ہندو“ میں دئیے ہیں۔ وہ
مغرب جو حقوق نسواں کے اُس برانڈ یا ایڈیشن کا ذمہ دار ہے، جس کی
نقل آج انڈیا گیٹ پر موم بتیاں جلانے والے کررہے ہیں۔
اس مغرب میں ہر وقت جسم خاتون تقریباً نیم عریاں ہی
دعوت نظارہ دیتا ہے، وہاں پردے کی ”گھٹن“ اور ”بندشوں“ کی جکڑن
بھی نہیں ہے؛ مگر وہاں کا حال یہ ہے:
امریکی ادارہ رینن ریپ
ایبیوس اینڈ انسیسٹ نیشنل نٹ ورک Rainn Rape Abuse and Incests National
Network کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ۳۵ کروڑ امریکی آبادی میں ہر سال ۲ لاکھ عورتوں کے خلاف جنسی دست درازی کے واقعات
ہوئے ہیں، یعنی تقریباً ہر دومنٹ پر ایک واقعہ ہوتا
ہے۔ ۲۰۰۰/
میں برطانیہ
میں کل خواتین آبادی کا 4.9% زنا یا جنسی تشدد کا
بنا تھا۔ حال ہی میں یہ تعداد 10% ہوگئی ہے۔
آئیرلینڈ، سویڈن اور جرمنی میں یہ تعداد ۲۵ سے ۳۵ فیصد تک ہے۔
۲۰۰۷/
میں بارہ(۱۲) ہزار بچوں میں کرائے گئے سروے کے مطابق ان میں ۵۳ فیصد کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہے۔
امریکہ میں ہونے والے زنا کے ۱۰۰ معاملات میں صرف ۴۶ ہی رپورٹ ہوتے ہیں اور ۱۰۰ میں ۳
ملزم ہی جیل جاپاتے ہیں۔ برطانیہ میں ۱۰۰ سے صرف ۶
جنسی تشدد کے ملزم جیل تک جاپاتے ہیں۔ مسئلہ پولیس یا
عدالتیں نہیں ہیں، مسئلہ ہم ہی ہیں۔ (دی
ہندو نئی دہلی ۲۷/دسمبر ۲۰۱۲/)
ہندوستان بھر میں
مظاہرین کا زور صرف سخت سزائیں، جلد انصاف اور پولیس سروس کو
بہتر بنانے کے گرد ہی گھوم رہا ہے اور عملاً حقیقت یہ ہے کہ پولیس،
عدالت اور جدید ترین سائنسی تحقیقاتی وسائل امریکہ،
جرمنی، برطانیہ سے بہتر شاید ممکن ہی نہیں ہیں؛
مگر اس کے باوجود وہاں بھی یہ مسئلہ اتنا بھیانک ہے، جتنا ہمارے
یہاں ہے۔ تو پھر مسئلہ کا حل کیا ہو؟
مسئلہ کا حل یہ
ہے کہ معاملہ کے دونوں فریق مرد اور خواتین اپنی اپنی
طاقت کا استعمال الٰہی رہنمائی میں اپنے پیداکرنے
والے رب کی مرضی کے مطابق کریں۔ مرد کے ذمہ مردانہ خصوصیت
اور خواتین کی زنانہ خصوصیات دونوں الگ الگ معاشرہ کی تکمیل
اور ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ دونوں کو ہی آزادی
اورپابندیاں برداشت کرنی ہوں گی۔ دونوں کو اپنے اپنے
دائرئہ کار طے کرنے ہوں گے، ورنہ ایسے مسائل پیدا ہوں گے کہ زنا
بالجبر اس کے آگے معمولی مسئلہ بن جائے گا۔ آج مطلق آزادی کے
تصور نے انسانیت کو توڑ پھوڑ کر بکھیر کر رکھ دیا ہے۔
خواتین اتنی آزاد ہوئیں کہ اب نہ وہ نکاح کرنا چاہتی ہیں،
نہ بچہ پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ
اب ہم جنس میں شادی کا شیطانی تصور قانون بن کر اقوامِ
متحدہ سے برطانیہ سے، فرانس سے،امریکہ کی بیشتر ریاستوں
سے اور دنیا کے اس وقت سب سے طاقتور شخص براک اوبامہ سے منظوری پاچکا
ہے۔ یعنی اب شادی مرد اور عورت میں نہ ہوکر عورت
عورت اور مرد مرد کے درمیان ہوگی۔ اس سے کیا کیا
مسائل پیدا ہوں گے، کوئی بھی سوچ سکتا ہے؛ بلکہ یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ مسئلہ کی جڑ حضرت انسان ہی غائب ہوجائیں؛ کیونکہ
بچے آسمان سے تو ٹپکتے نہیں اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا
Stem
Cell سے پیدا نسل کس کو ماں باپ کہے گی؟ پھر بڑھاپے کا کیا
ہوگا؟ انسانوں کا ذہن صحیح سمت میں سوچنے والا بنائے بغیر صرف
جذباتی قانون سازی کسی بھی مسئلہ میں کامیاب
نہیں ہوتی ہے، جہیز کی اموات کے بعد بنائے قوانین
کا کتنے بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا ہے کہ بہوؤں نے یا ان کے
خاندان والوں نے پورے خاندان کو خواتین سمیت جیلوں میں
ڈلوادیا اور اب عدالتیں اس رجحان کے خلاف قانون سازی پر زور دے
رہی ہیں، دلتوں کے خلاف بے عزتی کے الفاظ پر جیل بھیجنے
کے قوانین کا کتنے بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہورہا ہے، سب کو معلوم
ہے۔ اگر مرد اور عورت ساتھ کام کریں گے تو وہ کہیں حاکم ہوں گے،
کہیں محکوم، کہیں افسر کہیں ماتحت۔ ایسے میں
کہیں کا غصہ کہیں نکالنے کا سلسلہ، جنسی تشدد کے قوانین کی
اندھی لاٹھی گھمانے سے کہاں سے کہاں تک جائے گا، اس کو سمجھا جاسکتا
ہے۔ جرم جرم ہوتا ہے چاہے مرد کرے یا عورت کرے۔ اس کی
تمام مثالیں سامنے ہیں، گھریلوتشدد میں تو ساس، بہو، نند،
بھاوج وغیرہ میں تو طرفین میں خواتین ہی ہوتی
ہیں۔ ایسا کوئی کلیہ بنادینے سے کہ جرم صرف ایک
جنس ہی کرے گی، کچھ ہی عرصہ میں سماج کو سنگین
نتائج بھگتنے ہوں گے اور آخر میں سب سے بری طرح متاثر خواتین ہی
ہوں گی۔ جب سماج کسی برائی کے لیے ماحول بناتا ہے،
چاروں طرف سے بڑھاوے کے لیے وسائل اختیار کیے جاتے ہیں،
پھر اس کے کڑوے کسیلے پھل دیکھ کر گھبراتے کیوں ہیں؟ اگر
اس درندگی اور اس کے علاوہ تمام انسانیت دشمن برائیوں سے نجات
پانی ہے تو ایسا ماحول بنانا ہوگا، جہاں بلاتفریق ہر ایک
میں خدا کا خوف پیدا ہو، اکیلے میں بھی اور پبلک میں
بھی، سب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے بنیں، ورنہ آپ کہاں
کہاں پولیس کے پہرے لگائیں گے، کہاں کہاں CCTV
لگائیں گے، ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ مرد اور خاتون ہرجگہ ساتھ رہیں،
ساتھ کام کریں، دن میں بھی رات میں بھی، کال سنٹر میں،
پولیس میں، فوج میں ہر جگہ ہر وقت ساتھ رہیں اور پھر امید
کریں کہ نہ جسمانی کشش کا بیجا استعمال ہوگا اور نہ اس نمائش کا
شیطانی ردعمل ہوگا۔ ذہن اور دل بدلے بغیر کوئی
انقلاب نہیں آتا۔ ایک شراب بندی حضرت محمد … نے کی
تھی کہ ایک حکم سے مدینہ کی گلیاں شراب کے بہنے سے
کیچڑ ہوگئیں اور لوگوں نے ہونٹوں سے لگے جام پھینک دئیے؛
مگر اس انقلاب کے ہزار سال بعد امریکہ نے تمام قوانین کے سہارے شراب
بندی لاگوکرنی چاہی؛ مگر کامیاب نہیں ہوئے۔
ہمارے یہاں گاندھی جی کی جائے پیدائش گجرات میں
شراب بندی کا جو حال ہے وہ سب جانتے ہیں۔ ہم فطرت کے قوانین
سے نعروں اور جذبات یا خواہشات کے ساتھ ٹکرانہیں سکتے، مرد وعورت میں
ایک دوسرے کے لیے کشش اور کھنچاؤ قدرتی قانون ہے، نظر خراب ہو یا
نہ ہو اسکرٹ یا کسی بھی پہناوے کے مناسب یا غیرمناسب
ہونے کا ردعمل مرد پر Biology کے حساب سے ہوگا ہی؛ کیونکہ یہ
فطری تقاضہ ہے۔ زنانہ اور مردانہ ہارمون الگ الگ طریقہ سے متاثر
ہوتے ہیں اور متاثر کرتے ہیں، یہ سب سائنسی حقیقت
ہے، مُلّا کا فتویٰ نہیں ہے۔ ایک طرف آپ ننگے
جسموں، ناچ، شراب اورنشہ آور ادویہ کا کلچر عام کرتے ہیں، ترقی
اور آزادی کے نام پر دوسری طرف اس کے شیطانی ردعمل سے
ڈرتے بھی ہیں۔ راج پتھ پر دھرنا دینے والے دہلی کے
ڈسکو کلبوں، ڈانس باروں، ریڈ لائٹ ایریا جی بی روڈ
پر دھرنا نہیں دیتے، ان کے خلاف قوانین بنانے کی مانگ نہیں
کرتے، خاتون اسپیشل بسوں اور میٹرو ڈبوں کی بات نہیں
کرتے، اگر آپ توقع کرتے ہیں کہ اپنی ”مرضی“ کے لباس میں
ملبوس خاتون ڈی ٹی سی یا میٹرو کے کھچاکھچ بھرے ڈبہ
میں دنیا پرستانہ ذہنیت رکھنے والے مردوں کے ذریعہ پریشان
نہیں کی جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب قوانین
بدل گئے ہیں، جب کہ ابھی ایسا ہوا نہیں ہے۔ شراب
اور عورتوں یا دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی عورتوں
کے خلاف جرائم یا قتل کے حالات دیکھ لیجیے 70%تک یہ
جرائم شراب کے نشہ میں ہوتے ہیں؛ مگر شراب نوشی آج نئی
نسل کے اندر لڑکا ہو یا لڑکی عام ہوتی جارہی ہے۔
ڈرگس کا نشہ اس سے بھی زیادہ عام ہورہا ہے۔ دہلی، پونے،
ممبئی، چنڈی گڑھ اور ہندوستان کے بڑے شہروں میں RAVE
پارٹیوں اور برتھ ڈے پارٹیوں میں 200-300 نوجوان لڑکے لڑکیوں
کا پایاجانا کس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان پارٹیوں کے
خلاف دھرنے کیوں نہیں ہوتے؛ جبکہ جرائم کے بیج تو ان ہی
پارٹیوں میں بوئے جاتے ہیں۔ WHOنے اپنی حالیہ رپورٹ میں صاف کہا ہے کہ آسٹریلیا
اور برازیل میں کیے گئے مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ ایک
اونس شراب پر 1%دام بڑھانے سے عورتوں کے خلاف جرائم میں 5.3% کی کمی
آجاتی ہے۔ پتہ چلا کہ 60%قتل اور 45%زنا رات ۱۱/بجے سے صبح ۶/بجے
تک ہوتے ہیں۔ اس درمیان اگر شراب نہ ملے تو قتل اور زنا کے
واقعات میں 44%کمی آسکتی ہے۔ (کونیتاسنہا ٹائمس آف
انڈیا ۱۲/۱۲۲۰۱۲/ نئی دہلی)
اگر صرف ۷/گھنٹہ شراب بند کرکے جرائم میں 44%کمی لائی
جاسکتی ہے تو مکمل شراب بندی سے کتنا فائدہ ہوگا؟ امریکی
فوج کی حالیہ رپورٹ میں بتایاگیا کہ فوج میں
خواتین کی 48.5%تعداد نے دوران ڈیوٹی جنسی تشدد کی
شکایت کی اور یورپین یونین کی رپورٹ میں
بتایاگیا کہ وہاں پچھلے ۵
سالوں میں کرایہ پر کوکھ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں تین
گنا اضافہ ہوگیا ہے، یعنی اب وہ ایک بچہ بھی اپنی
کوکھ میں اٹھانے کی زحمت نہیں کریں گی۔ یہ
زحمت جو اٹھائے گی وہ بھی خاتون ہوگی؛ مگر وہ انڈیا کی
ہوگی۔ کیا یہ وہی منزل ہے جس کی طرف ہم موم
بتی جلاکر انڈیا گیٹ سے چل کر پہنچنا چاہتے ہیں؟؟؟
***
----------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2 ،
جلد: 97 ، ربیع الثانی 1434 ہجری مطابق فروری 2013ء